Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

شدت کا حبس و گرمی موسلادھار بارش میں بدل گئی تھی۔

باہر بارش زوروں پر تھی تو اندر پارٹی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ ڈانسنگ فلور پر کئی جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے محور قص تھے۔ خوش بُوئیں، قہقہے اور رنگ ہر سو بکھرے ہوئے تھے۔ یہ شہر کے مشہور بزنس مین کی طرف سے دی گئی ایک گیٹ ٹو گیدر تھی جس میں مراعات یافتہ طبقے کے لوگ شامل تھے۔ ان کے بلند قہقہے و سرگوشیاں ماحول میں بکھری ہوئی تھیں فکر معاش تنگ دستی وبدحال زندگی کی صعوبتوں سے ناواقف وہ لوگ پارٹی کے ہر لمحے کو زندگی سمجھتے ہوئے انجوائے کررہے تھے۔
ان ہی لوگوں میں ایک خوب صورت چہرہ بظاہر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے وہاں موجود تھا مگر ان حسین بوجھل آنکھوں میں اضطراب تھا اضطرار تھا وہ جلدازجلد یہاں سے فرار چاہتی تھیں۔
(جاری ہے)

مما نے اطلاع دے دی تھی پری کے آنے کی اور وہ سنتے ہی بے قرار ہوگئی تھیں۔ وہاں جانے کے لیے لیکن صفدر جمال نے جانے کی اجازت نہ دی یہ کہہ کر کہ آج کی پارٹی ان کے کاروباری تعلقات کے لیے بے حد ضروری ہے وہ پارٹی سے واپسی پر ان کو مما کے ہاں ڈراپ کردیں گے وہ حسب عادت خاموش رہی تھیں۔
وہ جانتی تھیں ان کی ہر پارٹی کاروبار کے لیے اہم ہوتی ہے جو وہ کبھی تنہا اٹینڈ کرنے کے عادی نہ تھے۔ سو وہ سیاہ فینسی سلور کام والی ساڑھی میں سیاہ پتھروں کی جیولری اور ہلکے میک اپ میں ہمیشہ کی طرح دلفریب و باوقار دکھائی دے رہی تھیں۔ پارٹی بڑی بددلی سے اٹینڈ کی تھی۔ رقص کا بھی ایک ہی راوٴنڈ لیا تھا۔ صفدر کے اصرار پر بھی دوسرے راوٴنڈ کے لیے راضی نہ ہوئی تھیں۔
صفدر جمال دوست کی بیگم کے ساتھ محو رقص تھے۔ مثنیٰ کے لیے ایسے نظارے کسی حسد و جلن کا باعث نہ تھے وہ ایسے مناظر کی عادی تھیں۔ صفدر جمال بے حد کشادہ روشن خیال آدمی تھے۔

”ڈارلنگ! آج تو آپ کو پارٹی میں دلچسپی ہی نہیں ہے۔ اس طرح بیٹھی ہیں گویا کسی نے سر پر پستول رکھ کر بٹھایا یو۔“ صفدر جمال ڈانس سے فارغ ہوئے تو ان کے برابر میں رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے مسکرا کر گویا ہوئے تھے۔

”آپ نے کہا تھا زیادہ ٹائم نہیں لگائیں گے، اب پارٹی ختم ہونے والی ہے۔“

”اوہ! یہ بات ہے ورنہ میں تو سمجھا تھا مسز نیلوفر کے ساتھ مجھے رقص کرتا دیکھ کر آپ رقابت کا شکار ہوگئی ہیں۔ وہ شوخی سے گویا ہوئے۔ مثنیٰ نے ایک نگاہ ان پر ڈالی پھر دھیرے سے مسکرا کر گویا ہوئیں۔“

”یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں، میں آپ کو کسی بھی عورت کے ساتھ دیکھ کر حسد محسوس نہیں کرسکتی۔
“ ان کے لہجے میں خاصا اعتماد تھا۔

”کاش ! آپ محسوس کریں، میری خواہش ہے یہ …!“ کچھ دیر کے لیے دونوں کے درمیان خاموشی قائم ہوگئی تھی۔ گہری خاموشی!

”چھ ماہ ہوگئے ہیں مجھے پری سے ملاقات کیے … وہ مما کے ہاں میری خاطر آئی ہے۔ ایک ایک لمحہ مجھ پر بھاری گزر رہا ہے۔“ اس گمبھیر خاموشی کومثنیٰ کی بھاری آواز نے منتشر کیا۔

”سعود کے لیے بھی آپ کو اس قدر جذباتی نہیں دیکھا میں نے … !“ وہ طنزیہ انداز میں گویا ہوئے تھے۔
 

”پری … بیٹی ہے میری“

”سعود بھی آپ کا بیٹا ہے۔ کیا آپ نے اسے جنم نہیں دیا؟“ ان کے انداز میں وہی ناگواری و سردمہری درآئی تھی جوتکرار کا باعث بنتی تھی۔

”صفدر! سعود لڑکا ہے آزاد اور اپنی منوانے والا جب کہ پری لڑکی ہے جو بے بس اور دوسروں کی مرضی پر چلتی ہے۔“ ان کا لہجہ چٹخا ہوا تھا۔

”دوسروں کے نہیں وہ اپنے باپ کے گھر میں رہ رہی ہے پھر…“

”پلیز یہ موضوع ختم کرو میں اس پر بات کرنا نہیں چاہتی۔
“ وہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ صفدر جمال نے بھی میزبان جوڑے کو اپنی میز کی طرف آتے دیکھ کر لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے موڈ درست کرلیا۔

واپسی کا سفران کا خاموشی سے کٹا تھا۔

”مما! پری کہاں ہے؟“ گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کے بعد انہوں نے بڑی بے تابی سے پری کے متعلق پوچھا۔

”سوگئی ہے، کافی انتظار کرتی رہی تھی تمہارا۔“

”آنٹی! مجھے اجازت دیں۔
“ صفدر جو اُن کو اندر تک چھوڑنے آئے تھے، عشرت جہاں بیگم سے مخاطب ہوئے تھے۔ مثنیٰ اندر چلی گئی تھیں۔

”ہلکی پھلکی بارش نے طوفانی بارش کا رخ اختیارر کرلیا ہے صفدر! رات میں رک جائیں، میں جانے نہیں دوں گی۔“

عشرت جہاں صفدر کی ساس ہی نہیں خالہ بھی تھیں۔ وہ ان کی بڑی بہن کے بیٹے تھے اکلوتے !بہن کے حوالے سے وہ عزیز تو پہلے ہی تھے، داماد بن کر عزیز تر ہوگئے تھے، اسی استحقاق سے انہوں نے ان کو روکنا چاہا تھا۔

”آنٹی !کوئی مسئلہ نہیں ہے بارش کچھ وقت میں تھم جائے گی۔“ مگر عشرت جہاں کے بے حد اصرار پر صفدر کو وہاں رُکنا پڑا تھا۔

”بے حد آہستگی سے دروازہ کھول کر مثنیٰ کمرے میں داخل ہوئی تھیں اندرٹھنڈک کے ساتھ نیلگوں اندھیرا بکھرا ہوا تھا۔ بیڈ پر وہ بے خبر سورہی تھی۔ مثنیٰ بے آواز قدموں سے چلتی بیڈ کے قریب آکر رکی تھیں۔ پری کا چہرہ کمبل سے باہر تھا۔
براوٴن بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے، اس کے سفید چہرے پر ستواں ناک و دراز پلکیں نمایاں تھیں۔ ان کو وہ بے حد کمزور لگی تھی۔ صاف ستھری رنگت میں سرخی کی جگہ پیلاہٹ نے لے لی تھی۔ مثنیٰ پیار بھری نگاہوں سے بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ عموماً اس کو اسی طرح سوتے ہوئے دیکھ کر اپنی ممتا کی پیاس بجھاتی تھیں۔ نامعلوم کیا وجہ تھی، کیا پچھتاوا تھا کہ وہ جاگتے میں کبھی بھی اس سے پیار نہ جتاسکی تھیں۔
اپنی محبت کا اطہار تو دور، وہ کبھی اس سے نگاہ ملاکر بات نہیں کرسکتی تھیں کہ عجیب سا حجاب و تکلف ان کے درمیان مانع تھا۔ پھر نامعلوم ان کی نگاہوں کی بے تاب تپش سے یا مما کی بے خودی کہ بے خبر سوتی پری کچھ بے چین سی ہونے لگی۔ ساکت پلکوں میں جنبش ہونے لگی تو وہ اسی طرح دبے قدموں سے واپس مما کے کمرے میں آگئیں۔“

”دیکھ لیا بیٹی کو …؟ “ عشرت جہاں نے بیٹی کے رنجیدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”جی ! آپ نے دیکھا کس طرح کمزور ہوگئی ہے پری پہلے سے؟“

”کمزور نہیں اسمارٹ کہو، آج کل تو لڑکیاں دیوانی ہوتی جارہی ہیں دبلی ہونے کے لیے … اور لوگ بھی ایسی سوکھی سڑی لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں۔“

”مما! کمزور اور اسمارٹ ہونے میں فرق ہے پری کمزور ہورہی ہے۔ “ مثنیٰ نے ماں کی دلیل کو رد کرتے ہوئے کہا۔

”وہم کا کوئی علاج نہیں ہیے۔
لوگ خوش ہوتے ہیں ہماری بیٹیاں اسمارٹ ہیں اور تم بلاوجہ کی فکریں پالتی ہو۔ لڑکیاں ہزاروں جتن کررہی ہیں دبلا ہونے کے لیے ، خود کو سمارٹ کرنے کے لیے اور ایک تم ہو جو سرے سے دماغ ہی علیحدہ رکھتی ہو سب سے۔“ عشرت جہاں کو ان کی پریشاننی و فکر ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔

”آپ نہیں جانتیں، وہ لوگ کتنے ظالم اور سفاک ہیں خود غرض اور مفاد پرست ہیں اول درجے کے، میری بیٹی کو بے دام کی کنیز بناکر رکھتے ہوں گے، اس کا چہرہ غور سے دیکھیں آپ ! شادابی وبے فکری وہاں نام کو نہیں ہے۔
اس عمر میں لڑکیاں پھولوں کی طرح شاداب و تروتازہ رہتی ہیں۔“ ان کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی تھی۔

”تم یہ کیوں بھول جاتی ہو کہ اس کا باپ بھی ہے وہاں پر…“

”باپ … ہونہہ! “ انہوں نے زہر خند لہجے میں کہا۔

”مجھے یقین ہے وہ پری کو نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا ہوگا۔“

”یہ تم کس بنا پر کہہ سکتی ہو؟“ وہ ازحد حیران ہوتی تھیں۔

”پری کا چہرہ مجھ سے مشابہہ ہے اور وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔“

”مگر پری تو بہت تعریفیں کرتی ہے باپ کی …“

”پری میری بیٹی ہے، سمجھوتا کرنا جانتی ہے ورنہ مجھے یقین ہے …“

”خیر چھوڑو اس ذکر کو تمہارا خاوند ہے بیٹا ہے، گھر ہے دولت جائیداد کسی شے کی کمی نہیں ہے تمہیں، کسی ملکہ کی طرح رہتی ہو۔ گزرے وقت کو مت چھیڑا کرو۔
صفدر کو رات کے لیے روک لیا ہے میں نے۔“

###

چوٹ اتنی گہری بھی نہ تھی کہ وہ لگتے ہی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر زمین بوس ہوجاتی ہے۔ بے ساختہ گرنے کے باعث پیشانی اس کی فرش سے ٹکرائی تھی۔ بے ہوش وہ اس ذہنی شدید ابتری و کشمکش کے باعث ہوئی تھی جو وردہ کے ساتھ جاتے ہوئے اس کے اندر یکلخت کسی طوفان کی مانند برپا ہوا تھا پھر وردہ کے ناروا رویے نے بھی ثابت کردیا تھا کہ وہ کسی اور ہی مقصد کے لیے اسے لے کر جانا چاہ رہی تھی۔
یہ ادراک صرف لمحے بھر میں اس کو ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں، غنودہ حالت میں گزرا وقت کسی فلم کی طرح اس کے ذہن کی اسکرین پر چل رہا تھا۔ وہ وردہ کے ساتھ جاتے جاتے ایک دم بھاگ کر سامنے گیٹ کی طرف بڑھتی ہے، گیٹ کھل جاتا ہے، وہ اندر گرتی ہے، پیچھے وردہ کے قدموں کی صدا وہ سنتی ہے مگر اگلے پل اپنے اردگرد تاریکی پھیلتی دیکھتی ہے اور اس کو ہوش نہیں رہتا ہے۔
اب وہ ہوش میں آرہی تھی۔

چند ساعتیں وہ چھت پر لٹکتے فانوس کو دیکھتی رہی تھی۔ کچھ لمحے بعد ہی اس کو احساس ہوگیا کہ وہ کسی اجنبی جگہ پر، اجنبی لوگوں کے ساتھ ہے اور وہ گھبرا کر اٹھی تھی۔ اس وقت وہ ایک خوب صورت سجے سجائے کمرے میں تھی۔ اس کے سوا کوئی دوسرا وہاں موجود نہ تھا۔ وہ تیزی سے بیڈسے اترنے لگی تھی کہ معاًگیٹ کھلا اور اندر آنے والی خاتون کو دیکھ کر اس پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔

”خدا کا شکر ہے، آپ ہوش میں تو آئیں۔ ایک گھنٹے سے آپ کا انتظار کررہی ہوں۔ “ وہ دلکشی سے کہتی ہوئی اس کے قریب ہی بیٹھ گئی تھیں۔ ”گھبراوٴ نہیں، خوف زدہ مت ہو۔ میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاوٴں گی۔“ وہ رجاء کی آنکھوں میں اترتے ہوئے خوف کو محسوس کرکے نرمی سے بولیں۔ رجاء کی آنکھوں میں اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ اس کے قریب براجمان خاتون وہ تھیں جو پورے محلے میں رسوا تھیں۔
رضیہ خالہ اور دوسری محلے دار خواتین نے مردوں کو وقت بے وقت وہاں آتے دیکھا تھا۔ محلے کے آوارہ نوجوان بھی ان کے گھر کے قریب بیٹھے پائے جاتے تھے۔ خالہ رضیہ کے شوہر نے خود گواہی دی تھی ان کی بے راہ روی کی کہ وہ خود کو بڑی مشکل سے محفوظ رکھ سکے تھے۔ ان کے چنگل میں پھنسنے سے … اور اب وہ خود ان کی گرفت میں تھی۔ ساری راہیں مسدور محسوس ہورہی تھیں۔
کہیں سے کوئی راہ، کوئی روزن دکھائی نہ دے رہا تھا۔ اس کو کیا معلوم تھا پناہ ھاصل کرنے کے لیے وہ جس دروازے پر دستک دے رہی ہے وہ جگہ سب سے غیر محفوظ و خطرناک ہوگی۔

”میں جانتی ہوں، اس وقت تم پر کیا بیت رہی ہے۔“ اس کی سراسیمہ حالت و آنکھوں میں نمی اترتی دیکھ کر وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر گداز لہجے میں گویا ہوئیں پھر وہ ایک دم ہی اپنے حواس گم کر بیٹھی ان کا مہربان انداز! گویا اس کے ضبط و حوصلے کا بند ٹوٹ گیا۔
وہ خوب روئی ، انہوں نے بھی اس کو رونے سے روکا نہیں۔ جب خوب رونے کے بعد وہ چپ ہوئی تو انہوں نے اس کو پانی پلایا پھر وہ نوڈلز لے آئی تھیں۔ جب ذہن طوفانوں کی زد میں ہوا اور دل پر ملامت کی شرمندگی چھائی ہو تو بھوک ازخود ہی مٹ جاتی ہے۔ بھوک و پیاس کا بھی احساس سویا ہوا تھا۔ اس کے انکار کے باوجود انہوں نے زبردستی اس کو چند چمچ کھلادیئے تھے۔

”میں گھر جانا چاہتی ہوں۔“ رجاء نے ٹشو پیپر سے منہ صاف کرتے ہوئے کہا۔

”گھر جاکر اپنی امی کو کیا بتاوٴ گی؟“ وہ ٹرالی کچن میں رکھ کر آئیں تو گویا ہوئیں۔”وہ معلوم کریں گی، پکنک سے اتنی جلدی کیوں چلی آئیں اور تہاری دوست جو گھر کے اندر چھوڑ کر جاتی ہے وہ باہر سے ہی یوں چلی گئی؟“ حالات بے حد سیدھے و عام تھے مگر رجاء کے پریشان ذہن کو ایک بار پھر شدید جھٹکادے گئے تھے۔
اس کی آنسوووٴں سے بوجھل آنکھوں میں حیرانی درآئی تھی۔

”آپ … آپ… آپ کو کیسے معلوم ہوا یہ سب؟“

”اس قدر حیران مت ہو ، آپ کی نازک صحت کے لیے اتنا حیران ہونا اچھا نہیں ہے۔“ وہ اس کی حیران پریشان صورت دیکھ کر دلکشی سے مسکراکر گویا ہوئی تھیں۔

رجاء کے لیے آج کا دن انکشافات کا دن تھا۔

”مجھے یہ بھی معلوم ہے وردہ اور آپ کے درمیان کیا چل رہا ہے اور …“وہ کہتے کہتے معنی خیز انداز میں چپ ہوگئی تھیں۔

”اور … اور کیا؟“ وہ شدید حواس باختہ ہوگئی تھی۔ وہ مسکراہٹ دبائے کچھ توقف کیے اس کو دیکھتی رہی تھیں۔ ان کے خوب صورت چہرے پر عجیب سے رنگ تھے، بھوری آنکھوں میں ناقابل فہم چمک تھی۔

”میں آپ کے لیے چائے بناکر لاتی ہوں۔ اتنا روئی ہیں کہ سر میں درد ہوگیا ہوگا۔“ وہ اس کا سوال گول کرکے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

”مجھے چائے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ آپ میری کیفیت سمجھ رہی ہیں پھر آپ کیوں اتنے پر اسرار طریقے سے بات کررہی ہیں۔ آپ یہ سب کیسے جانتی ہیں جو صرف میں اور وردہ جانتی تھی؟“ وہ روہانسے لہجے میں بولی۔

   2
0 Comments